آپ سوچیں گے کے یہ میں نے کیا کہ دیا. لیکن ذرا ٹھہریے.
والدین فطری طور پر پہلے بچے کو پوری توجہ دیتے ہیں. اسے تو کیا اس کی ناجائز خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا. اگر والدین کی اکلوتی اولاد ہو تو ٩٠ فیصد چانس ہے کے اس میں مختلف قسم کی بری عادتیں پیدا ہو چکی ہوں گی. جیسے ہر وقت توجہ کا مرکز رہنے کی عادت، جیسے ہر خواہش کے پورا ہونے کی عادت وغیرہ وغیرہ.
والدین فطری طور پر پہلے بچے کو پوری توجہ دیتے ہیں. اسے تو کیا اس کی ناجائز خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا. اگر والدین کی اکلوتی اولاد ہو تو ٩٠ فیصد چانس ہے کے اس میں مختلف قسم کی بری عادتیں پیدا ہو چکی ہوں گی. جیسے ہر وقت توجہ کا مرکز رہنے کی عادت، جیسے ہر خواہش کے پورا ہونے کی عادت وغیرہ وغیرہ.
لیکن جونہی دوسرا بچہ ہوتا ہے تو یقدم پہلے بچے کو چھوڑ کر تمام توجہ دوسرے بچے پر مرکوز ہو جاتی ہے. پہلا بچہ نظر انداز ہونے کا عادی نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنے بہن یا بھائی کو ایک رقیب کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتا ہے. پھر یہ ہوتا ہے کے دوسرے بچے کی ناجائز خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا جبکہ پہلے بچے کی جائز خواہش کو بھی کبھی کبھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے. خاص طور پر جب دوسرا بچہ ، پہلے کے مقابلے میں کسی بات کی خواہش کرے، تو ہمیشہ پہلے کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے.
میرے خیال سے یہ صورت حال پہلے بچے کی نفسیات کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے. اور اس میں اپنے بہن بھائی کے لئے محبت سے زیادہ ایک رقیب کا جذبہ ابھرتا ہے. وہ اسے ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتا ہے جس نے آ کر اس کے تمام حقوق پر قبضہ کر لیا ہو. جس نے اس سے اس کے والدین کی تمام تر توجہ چھین لی ہو. اس سے مخاصمت کا جذبہ ابھرتا ہے اور کئی دفع یہ احساس پوری زندگی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا.
اس لئے اپنے بچوں کو نظر انداز ہونا سکھائیے .خاص طور پر جب ایک بچہ دوسرے کے مقابلے میں کوئی ضد کر رہا ہو تو انصاف سے فیصلہ کیجیے اور غلط ضد کرنے والے کو نظر انداز کیجیے. بچوں میں یہ احساس پیدا کیجیے کے اصل دنیا میں غلط مطالبہ تو کیا، کبھی کبھی صحیح مطالبے کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے. اور سب سے بڑھ کر انھیں اپنے عمل سے یہ بتائیں کے آپ ان سب کو برابر توجہ دیتے اور برابر نظر انداز کرتے ہیں.
No comments:
Post a Comment