Wednesday, September 16, 2015

باریش شخص، ہوٹل میں کھانا اور نوکرانی !


کسی فلم کا ایک سین دیکھ کر پوری فلم کے بارے میں راۓ قائم نہ کریں. ہم میں سے اکثر لوگ کسی ایک "سین" کو دیکھ کر کسی شخص کے بارے میں ایک راۓ قائم کر لیتے ہیں. کسی لڑکا لڑکی کو بات کرتے دیکھ لیا تو یقیناً ان کے درمیان اس بات سے بہت آگے معاملہ ہے، کسی شخص کو آفس میں آرام کرتے دیکھ لیا تو سوچا کے یہ تو ہے ہی ہڈ حرام، اور آج کل ایک باریش شخص کی اپنی فیملی کے ساتھ ہوٹل میں کھاتے اور بظاھر اپنی نوکرانی کو ساتھ بیٹھا کر نہ کھلانے کی تصویر سے یہ فرض کر لینا کے یہ شخص کتنا سنگدل اور بے مروت ہے. 



میرے خیال سے ہمیں انسانوں کو "بینیفٹ عوف ڈآوٹ" دینا چاہیے اور اپنے ذہن کو یہ بتانا چاہیے کے تم نے مکمل فلم دیکھی نہیں، صرف ایک سین پر راۓ قائم نہ کرو. انسانوں کے بہت سے اعمال کا سیاق و سباق ہوتا ہے، وہ بہت سی کیفیتوں سے گذرتے، بہت سے حالات کا سامنا کرتے ہیں اور ہم بحیثیت انسان زیادہ تر ان باتوں کا علم نہیں رکھتے. اس لئے کوئی راۓ قائم کرنے سے پہلے ہمیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کے کیا ہمارے پاس کسی کے خاص عمل کا اتنا علم ہے کے اس کے بارے میں راۓ قائم کر لیں. اور اگر کوئی شک ہو تو ہمیں بات کی اچھی توجیہ کرنی چاہیے. بینیفٹ عوف ڈآوٹ ہمیشہ بیٹسمین کے حق میں جاتا ہے. 



اس لئے بھائیو، اس باریش انسان نے شائد اپنی نوکرانی سے پوچھا ہو کے تم کھانا کھاؤ گی اور شاید اس نے انکار کر دیا ہو، شائد وہ پہلے سے کھا کر آئی ہو، شائد اس کا پیٹ ہی خراب ہو. کیا ہم یہ سب جانتے ہیں؟ نہیں نہ. تو دے دیجیے بینیفٹ عوف ڈآوٹ . 


لوگوں کے بارے میں بدظنی سے بچ کر جیو. 

Sunday, September 13, 2015

Scattered Thoughts 2015

Following are some of my scattered thoughts, which i shared on my Facebook profile as statuses. I do not claim that such thoughts were never there, but i can assure that the following ones came from my heart and mind. 

زندگی کے ساتھ سوتیلے بچوں جیسا سلوک کر کے ہم چاہتے ہیں کے وہ ہمیں  ماں کی طرح پیار کرے
"After treating life like a step child, we expect it to love us like a mother"

(2) "یا رب ! میرے پاس تیری بارگاہ میں نذرانے کے لئے صرف شکرانہ ہے اور تجھے سے طلب صرف معافی کی."

(3) "The more you are available the less you are desired. "


(4) Love should be easy. Yes, any relationship needs struggle and compromise. But if you are saying that 'he / she does everything to stick around regardless how difficult i am' then make yourself easy for him / her.If you are saying that 'he / she keeps up with all of your crap and that is why you love him / her' then decrease your crap. Don't expect that the other person will always have the same energy. Period.

I try to live by three philosophies in my life: 1) If you want to be happy, be grateful on small things people and God do. Being grateful for big things is a normal behavior 2) No matter what, never lie to yourself. You might give excuses to others but never, ever lie to yourself 3) Empathy is scarce. Many people need it. If you can't do anything for them, your words of empathy and care will do much more than you think


(6) "ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کے انسان نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا. آج کی دنیا دیکھ کر لگتا ہے کے انسان نےاگر کچھ سیکھا تھا وہ بھی بھلا دیا."
(7) "سوچتا ہوں کے ایک نا معقول سے مصور کی بنائی ہوئی تصویر کے ایک گھٹیا سے جریدے میں چھپ جانے سے ہم مسلمانوں کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے، ہماری دینی حمیت جاگ جاتی ھے لیکن جو دین کے نام پر لوگوں کو جلا رہے ہیں اور اسلام سے نا صرف غیروں کو بلکہ مسلمانوں کو بھی خائف کر رہے ہی ، ان کے خلاف تمام عالم اسلام میں ایک بھی جلسہ، ایک بھی ریلی نہیں نکلی، ان کے خلاف ایک مسلمان فوج بھی کھڑی نہیں ہوئی. یہ ہماری دینی حمیت بہت عجیب نہیں؟"

Saturday, September 12, 2015

بچوں کو نظر انداز ہونا سکھائیں


آپ سوچیں گے کے یہ میں نے کیا کہ دیا. لیکن ذرا ٹھہریے.

والدین فطری طور پر پہلے بچے کو پوری توجہ دیتے ہیں. اسے تو کیا اس کی ناجائز خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا. اگر والدین کی اکلوتی اولاد ہو  تو ٩٠ فیصد چانس ہے کے اس  میں مختلف قسم کی بری عادتیں پیدا ہو چکی ہوں گی. جیسے ہر وقت توجہ کا مرکز رہنے کی عادت، جیسے ہر خواہش کے پورا ہونے کی عادت وغیرہ وغیرہ. 

لیکن جونہی دوسرا بچہ ہوتا ہے تو یقدم پہلے بچے کو چھوڑ کر تمام توجہ دوسرے بچے پر مرکوز ہو جاتی ہے. پہلا بچہ  نظر انداز ہونے کا عادی نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنے بہن یا بھائی کو ایک رقیب کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتا ہے. پھر یہ ہوتا ہے کے دوسرے بچے کی ناجائز خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا  جبکہ  پہلے بچے کی جائز خواہش کو بھی کبھی کبھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے. خاص طور پر جب دوسرا بچہ ، پہلے کے مقابلے میں کسی بات کی خواہش کرے، تو ہمیشہ پہلے کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے. 

میرے خیال سے یہ صورت حال پہلے بچے کی نفسیات کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے. اور اس میں اپنے بہن بھائی کے لئے محبت سے زیادہ ایک رقیب کا جذبہ ابھرتا ہے. وہ اسے ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتا ہے جس نے آ کر اس کے تمام حقوق پر قبضہ کر لیا ہو. جس نے اس سے اس کے والدین کی تمام تر توجہ چھین لی ہو. اس سے مخاصمت کا جذبہ ابھرتا ہے اور کئی دفع یہ احساس پوری زندگی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا.

اس لئے اپنے بچوں کو نظر انداز ہونا سکھائیے .خاص طور پر جب ایک بچہ  دوسرے کے مقابلے میں کوئی ضد کر رہا ہو تو انصاف سے فیصلہ کیجیے اور غلط ضد کرنے والے کو نظر انداز کیجیے. بچوں میں یہ احساس پیدا کیجیے کے اصل دنیا میں غلط مطالبہ تو کیا، کبھی کبھی صحیح مطالبے کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے. اور سب سے بڑھ کر انھیں اپنے عمل سے یہ بتائیں  کے آپ ان سب کو برابر توجہ دیتے اور برابر نظر انداز کرتے ہیں.