Tuesday, July 2, 2013

چین، مذھبی جبر اور مسلمانوں کی حکمت عملی


غیر متصدقہ اطلاعات کے مطابق اس سال اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق ٢٠١٢ میں چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی (1). اس کے بارے میں مذمتی "بیان" دینے سے پہلے میں نے سوچا کے کیوں نہ تھوڑی ریسرچ کر لی جائے. وکیپیڈیا (2) کے مطابق سنکیانگ چین میں ایک خودمختار علاقہ ہے جہاں پر ترکی نسل کے مسلمانوں کی اکثریت ہے. غور طلب بات یہ ہے کے اس وسیع و عریض علاقے کی سرحدیں منگولیا،روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان ،پاکستان (گلگت بلتستان) اور بھارت سے ملتی ہیں.مزید غور طلب بات یہ ہے کے روس افغانستان جنگ میں چین نے اسی صوبے سے مجاھدین کو اسلحہ فراہم کیا اور یہاں مجاہدین کو تربیت بھی دی. میرے علم میں نہیں تھا کے اس گنگا میں چین نے بھی ہاتھ دھوے ہیں اور شاید پاکستان کے شمالی علاقوں کی طرح اب وہ بھی اپنے کیے کا خمیازہ بگھترہا ہے
خیر، جو بھی ہو مذھبی آزادی ہر انسان کا حق ہے، اور مذھبی جبر اور استحصال کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا. اس لئے ہم سب کو چین کی مذمت کرنی چاہیے بلکل اسی طرح جیسے ہم فرانس کی برقع زبردستی اتروانے اور (میری نظر میں) سعودیہ اور ایران کی، برقع زبردستی پہنانے کی مذمت کرتے ہیں. اس صورت حال میں ہمارے علما، سواے ایک عالم کے، سیاسی اور مذھبی اور سیاسی مذھبی جماعتوں کی خاموشی دیدنی ہے. کہیں سے چین کی مذمت میں ایک بیان بھی سننے کو نہیں ملا. شاید پاک چین دوستی آڑے آ گئی ہو یا وسیع تر ملکی اور ذاتی مفاد.یا شائد ملکی ایجنسی کا ڈر.
مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ، یہمسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے.ایسا صاف نظر آتا ہے کے دنیا کا اقتدار امریکا اور مغرب کے ہاتھ   سے نکل کر چین کے ہاتھ میں ہی جائے گا. تو پھر کیا مسلمانوں کی آنے والی نسل کو امریکا اور مغرب کے بعد ایک اور "طاغوتی قوت" سے لڑنے کی تیاریاں شروع کر دینی چاہیے؟ کیونکے شاید ہماری قسمت میں لڑنا اور مرنا ہی لکھ دیا گیا ہے. کیونکے ہم نہ تو جاپان ہیں کے دوسری جنگ عظیم کے بعد، اپنی خونی تاریخ سے سیکھ کر، نہ لڑنے کا معاہدہ کر لیں اور نہ ہی مشرقی اور مغربی جرمنی، کے ایک ساتھ پر امن انداز میں رہنا سیکھ لیں. تو کیا ہم مسلمانوں خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کو ایک اور سپر پاورملک سے لڑنا ہو گا جو آج تک ہمارا بہترین دوست ہے؟ (جیسے ایک زمانے میں امریکا ہمارا نجات دہندہ تھا؟). کیا مسلمان ہمیشہ جلاؤ، لڑو اور مارو والی حکمت عملی پر عمل پیرا رہیں گے یا دنیا کی قوتوں سے نبرد آزما ہوے بغیر امن خرید کراپنی اصلاح، اپنی ترقی، اور اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں گے؟ کیا ہم ابھی بھی شاعروں کی بتائی ہوئی حکمت "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی" پر عمل پیرا رہیں گے یا اپنے نبی کے اسوہ میں صلح حدیبیہ سے کچھ سیکھیں گے؟ بیشک مسلمانوں پر وقت کی قوتیں مظالم ڈھا رہی ہیں، لیکن کیا یہ وقت ہے کے ہم جواب میں لڑیں، کیا ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں؟ یا ہمیں امن خرید کر اپنے آپ کو ایسے مقام پر لانا چاہیے کے ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا جواب دے سکیں؟ ابھی وقت ہے کے ہم اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کا بغور جائزہ لیں ورنہ کم از کم مزید دو صدیاں لڑنے اور مرنے کے لئے تیار رہئے
الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو. جہاں رہئے اپنے ارد گرد الله کی مخلوق کے لئے باعث رحمت بنئے.
(1) http://www.aljazeera.com/news/asia-pacific/2012/08/201281113456325751.html
(2) https://en.wikipedia.org/wiki/Xinjiang

نوٹ: مندرجہ ذیل عبارت میں نے اپنی بات بہتر بیان کرنے کے لئے بعد میں ایڈ کی. "
 بیشک مسلمانوں پر وقت کی قوتیں مظالم ڈھا رہی ہیں، لیکن کیا یہ وقت ہے کے ہم جواب میں لڑیں، کیا ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں؟ یا ہمیں امن خرید کر اپنے آپ کو ایسے مقام پر لانا چاہیے کے ہم اپنے اوپر "ہونے والے مظالم کا جواب دے سکیں؟"

1 comment:

  1. Zamdi sahab ka hr gar'weda , jihaad sy duri ka rag ku alaap'ta hy ?

    ReplyDelete