بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج کل انتہا پسندی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے. معاشرہ دو انتہاؤں میں بٹ چکا ہے مذہبی انتہا پسندی اور لبرل انتہا پسندی. دوسرے الفاظ میں معاشرہ پولرائز ہو چکا ہے. دونوں طرح کی انتہا پسندی کے پیچھے بیشتر وجوہات اور اسباب ہو سکتے ہیں، اور یہ بات بھی امر واقعہ ہے کے، جیسے نیوٹن نے کہا کے ہر عمل کا ایک برابر اور مخالف رد عمل ہوتا ہے، اسی طرح ایک انتہا پسندی دوسری طرف برابر سطح کی مخالف انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے. لیکن آج میرا موضوع انتہا پسندی کے اسباب اور وجوہات پر روشنی ڈالنا نہیں بلکے اس انتہا پسندی کی طرف ہمارے رویے کو سمجھنا ہے.
ہمارے ہاں ان دونوں طرح کی انتہا پسندی کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ نظر ہے. ایک طرف، مذہبی انتہا پسندی کا ظہور چاہے پاکستان طالبان کی صورت میں ہو یا شیعہ سنی فسادات کی صورت میں، انہیں عام طور پر اس طرح سمجھا جاتا ہے کے اصل میں کچھ بیرونی طاقتیں ہمارے معاشرے میں اس انتشار کو پھیلانے کی ذمدار ہیں. اس طرح ہم اس انتہا پسندی کو پیدا کرنے میں اپنے کردار سے آنکھیں بند کر نے کے ساتھ ساتھ ، ان لوگوں کی اصلاح کا راستہ بند کر دیتے ہیں جو اصل میں دین کی متشددانہ اور انتہا پسند تعبیر کو خلوص نیت سے دین کی صحیح تعبیر سمجھتے ہیں. مذھبی انتہا پسند شخص دین کی انتہا پسندانہ تعبیر کے سہارے معصوم لوگوں کی جان کے در پےرہتا ہے اور ہم اس کے نظریات کی اصلاح کی بجاے سارا الزام باہر کی قوتوں کو دیتے رہتے ہیں.
دوسری طرف اگر کوئی دانشور، یا عام آدمی، لبرل اور سیکولر خیالات رکھتا ہو تو ہم اسے مغرب اور بیرونی طاقتوں کا آلہ کار اور مسلم معاشرے میں مغربی خیالات کا پرچار کرنے کی "سازش" کا حصہ سمجھتے ہیں. ہم اس بات کو بعید از امکان تصور کرتے ہیں کے، ہو سکتا ہے، مغربی تہذیب کے غلبے کے اس دور میں، ایک شخص مذھبی انتہا پسندی اور اپنے ذھن میں پیدا ہونے والے اشکالات کا مناسب اور تسلی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں، اس نتیجے پر پہنچا ہو کے اصل میں لبرل اور سیکولر نظریات ہی دنیا کے امن اور انسان کی بھلائی کے لئے ضروری ہیں. جب ہم دیکھتے ہیں کےیہ سیکولر اور لبرل انسان مذھبی شعارخصوصاً داڑھی، حجاب یا جہاد پر تنقید کر رہا ہے تو اس کے اشکالات اور اس کے ذہن میں موجود سوالات کا جواب خلوص اور تعن و تشنیع کے بغیر دینے کی بجاے ہم اس کو اپنے سے الگ دشمن کے گروہ میں ڈال دیتے ہیں اور اس پر لبرل اور سیکولر کا فتویٰ صادر کر کے اپنے سے الگ کر دیتے ہیں، جس سے اس بات کا امکان بلکل ختم ہو جاتا ہے کے وہ شخص اپنے خیالات کو بدلنا تو دور کبھی ان پر نظر رسانی بھی کر پائے
اپنے ضمیر کو بیچنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں مگر میری ناقص راے میں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہوتی;اس لئے کسی بھی انتہا پسند انسان کو، چاہے وہ مذھبی انتہا پسند ہو یا لبرل انتہا پسند، چاہے وہ ایک عام انسان ہو یا کوئی اسکالر، کسی دوسرے گروہ میں ڈالنے اور اس کے نام کے ساتھ غدار، امریکی ایجنٹ اور اس طرح کے دوسرے لیبل لگانے سے پہلے، ایک سائیکولوجسٹ کی طرح، ہمیں اس کے نظریات اور محرکات کا نظریاتی سطح پر تجزیہ کرنا چاہیے اور اس کے بعد یہ کوشش کرنی چاہیے کے ہم اس کے ضمیر کو جھنجوڑیں نہ کے اس کی آنا کو. ہم اچھے اخلاق، حسن ظن اور خلوص کے ساتھ اپنا مقدمہ اس کے سامنے رکھیں اور اسے بتائیں کے ہمارے نزدیک کس طرح اس کے خیالات اور افکار غلط ہیں.میری نظر میں یہ ناممکن ہے کے آپ کسی کو دشمن کا آلہ کار، غدار اور گستاخ بھی کہیں اور پھر یہ سوچیں کے وہ آپ کی بات سنے گا اور اپنے خیالات کو بدل دے گا. ایک مفکر کے الفاظ میں ہمارا اصل کام لوگوں کی نیتوں اور محرکات کو تہ کرنا نہیں بلکے ان کی اصلاح کرنا ہونا چاہیے اور ہمیں یہ نظریاتی جنگ نظریے سے ہی لڑنی ہے .
جہاں رہئے خدا کی مخلوق کے دلوں میں جگہ بنا کے رہئے
جہاں رہئے خدا کی مخلوق کے دلوں میں جگہ بنا کے رہئے