Tuesday, December 11, 2012

ہمارے معاشرے کے تضادات - "چھوٹے" کام

 ہمارے بڑے ہمیں ہمیشہ ایک نہایت عمدہ سبق پڑھاتے رہے. وو یہ کے بیٹا ہمیشہ محنت کرنا اور کوئی بھی کام کرنے میں کبھی کوئی آر محسوس نہ کرنا. وہ ہمیشہ ہمیں بتاتے رہے کے اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں ہی بڑائی ہے. یہ ایک نہایت عمدہ درس تھا جو وہ ہمیں دیتے رہے. 

لیکن اس کے ساتھ ہی، نہ چاہتے ھوے ،وہ ہمیں ایسے "درس" بھی دیتے رہے جو اوپر دیے گئے سبق کی نفی تھے اور جس سے ہمارے رویوں میں موجود تضاد جھلکتا ہے. وہ درس مختلف صورتوں میں سامنے آتا. میں آپ کے سامنے اس کی صرف  ایک سادہ سی صورت رکھتا ہوں. شادی بیاہ کے موقعے پر اگر ہمارے ہاں پتہ چلے کے لڑکا / لڑکی ایسے خاندان سے ہے جن کے آباؤ اجداد موچی یا مہاجر یا تیلی تھے تو وہاں شادی کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا. یہ ایک نہایت باریک تضاد ہے. لیکن اگر آپ بغور تجزیہ کریں تو آپ کو یہ واضح ہو جائے گا کے اسی طرح کے بہت سے غلط نظریات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لوگ "چھوٹا" کام کرنے میں آر محسوس کرتے ہیں. 

میں نے "چھوٹے " کام کے معاملے میں صرف ایک تضاد کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروائی. مجھے یقین ہے کے آپ اس آرٹیکل میں اپنے تجربات شیر کر کے مزید ایسے نظریات کی نشاندہی کر سکتے ہیں جس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے کے ہمارے ہاں لوگ،  بظاھر چھوٹے  کام کرنے میں آر کیوں محسوس کرتے ہیں. 


جہاں بھی رہیے اپنے ارد گرد الله کی مخلوق کے لئے سکون اور خوشی کا ذریعہ بنیے . 



Sunday, December 2, 2012

غزہ اور شام

غزہ پر اسرائیلی جارحیت یقینن کسی بربریت سے کم نہیں. اس پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں نے  اسرائیل کی مذمت کی. ہم سب اور ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی آگے آگے تھیں. کچھ دنوں کے لئے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کی شدید مذمت کی گئی، ہماری مذہبی، سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے جلسے بھی کیے اور فلسطینی عوام کے لئے چندہ بھی ا کٹھا کیا گیا. 

 لیکن اس کے برعکس، شام میں ہونے والی جارحیت کے خلاف ہر طرف خاموشی ہے. آخر کیوں؟  ہم سب خاموش کیوں ہیں؟ ہماری مذہبی، سیاسی، اور مذہبی-سیاسی جماعتیں شام کے صدر کے خلاف مظاہرہ کیوں نہیں کرتیں؟  کیا صرف امریکا اور اسرائیل کا ظلم ہی ظلم ہے اور کسی مسلمان کا کیا ہوا ظلم، ظلم نہیں؟ یا پھر یہاں آواز اٹھانے سے وہ "مفادات" حاصل نہیں ہوتے جو امریکا اور اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے سے ہوتے ہیں؟ ہم سب کا،ہماری مذہبی، سیاسی، اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا یہی دوہرا معیار، میری نظر میں ہمیں اخلاقی برتری کے مقام سے نیچے گرا دیتا ہے. ہم دوسروں کے ظلم کو بڑھا چڑھا کے بیان کرتے ہیں اور اس کے خلاف ریلیاں نکال کر عوام میں مقبولیت بھی حاصل کرتے ہیں. لیکن اپنوں کے مظالم پر 
ایک چھوٹا سا بیان دے کر سمجھتے ہیں کے فرض پورا ہو گیا.

   ہمیں ہر حال میں انصاف سے معاملہ کرنا چاہیے، اس انصاف کا پیمانہ ہر ایک کے لئے ایک جتنا ہونا چاہیے. چاہے وہ ہمارا اپنا ہو یا دشمن. یہی انسانی اخلاقیات کا تقاضا ہے اور یہی ہمارے دین کی ہدایت ہے.