پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کا میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے. وکیپیڈیا کے مطابق پاکستان میں پرائیویٹ چینلز کی تعداد ١٠٠ کے لگ بھگ ہے. یہ چینلز تفریح، تعلیم، خوراک، فیشن، موسیقی، فلم، نیوز، مذھب، کھیلوں، بچوں، علاقائی زبانوں اور انٹرنیشنل چینلز پر مشتمل ہیں. ان سب میں سر فہرست تفریح سے متعلق چینلز کی تعداد ہے جو لگ بھگ ٣٠ ہے.تفریح کے بعد سب سے زیادہ تعداد خبروں سے متعلق چینلز کی ہے جو تقریباً ٢٠ کے لگ بھگ ہیں.
آزادی خدا کی نعمت ہے لیکن ہر نعمت کی طرح انسان اس نعمت کا بھی سوء استعمال کرتا اور حدود سے تجاوز کرتا ہے. میڈیا کی آزادی پاکستان کے لئے یقیناً خدا کی نعمت ہے لیکن یہ بات بھی امر واقعہ ہے کے اس شتر بے مہار میڈیا کے بہت سے نقصانات بھی سامنے آ رہے ہیں.
یہ میڈیا ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو شہرت ملی،اسی کی وجہ سے غریب عوام کو طمانچے مارنے والے سیاست دان بے نقاب ہوے، یہ میڈیا ہی ہے جس نے اچھے اہل علم کو یہ موقع دیا کے وہ اپنی بات عوام الناس تک پہنچا سکیں اور آج میڈیا کی ہی بدولت ہمارے حکمران یہ نہیں سوچ سکتے کے وہ کوئی اقدام کریں گے اور انھیں عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا پڑے گا.
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کے یہ میڈیا ہی ہے جس نے شعیب ثانیہ شادی اور سکندر زمرد جیسے غیر اہم اور چھوٹے معاملات کو غیر معمولی کوریج دی، آرمی بیس پر حملے اور ڈی آئ خان کی جیل جیسے حساس معاملات کو غیر ذمداری سے لائیو ٹرانسمیشن میں چلایا، ایک صحافی پر قاتلانہ حملے کے جواب میں آئی ایس آئی کے چیف پر بے بنیاد الزامات لگاے اور ٨ گھنٹے تک یہ ٹرانسمیشن چلائی، مذھبی پروگراموں کو بھی منافع کمانے کا ذریعہ بنایا اور اپنے پروگراموں کے ذریعہ معاشرے میں فحاشی اور ایسی روایات ،جن کا ہماری تہذیب سے دور دور کا تعلق نہیں، کو پھیلانے میں نمایاں کردارادا کیا.
ہمارے ہاں عام طور پر میڈیا کے انہی "سائیڈ افیکٹس" کی وجہ سے بہت سےلوگوں کا خیال ہے کے میڈیا اصلاً بیرونی قوتوں کا آلہ کار ہے اور ان کی ایما پر پاکستان میں فحاشی اور مغربی اقدار کا فروغ کر رہا ہے. اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کے میڈیا یا کچھ چینلز غدار ہیں اور ملک مخالف ایجنڈا رکھتے ہیں. یہ تنقید عام طور پر میڈیا کے خبروں، تفریح اور مذھب سے متعلق پروگرامز اور چینلز پر ہوتی ہے .
میری ناقص راۓ میں یہ سوچ صحیح نہیں. یہ اسی سازشی طرز فکر کا شاخسانہ ہے جسے ہم بحیثیت قوم باقی معاملات میں بھی بروے کار لاتے ہیں. میں اپنے نقطہ نظر کو چند مثالوں سے واضح کرنا چاہوں گا.
پہلے تفریح کو لیجیے. میں جب بھی پاکستانی میڈیا پر بھارتی ڈراموں یا فلموں کودیکھتا ہوں تو مجھے اپنے شہر کا وہ ویڈیو سینٹر ذہن میں آتا ہے جو نہ صرف انڈین موویز بیچتا ہے بلکے ان موویز کو بھی بلیک میں بیچتا ہے جن پر پاکستان کا سینسر بورڈ ان کے 'پاکستان مخالف' ہونے کی وجہ سے پابندی لگا دیتا ہے. اور عوام دونوں طرز کی موویز شوق سے خریدتی اور دیکھتی ہے. میں سوچتا ہوں کے کیا ویڈیو سینٹر کا مالک، اور یہ عوام، غدار اور بیرونی قوتوں کا آلہ کار ہے؟
خبروں کی طرف آئیے. کیا صرف ہمارے چینل بے بنیاد، حقائق اور تحقیق کے بغیر خبر پھیلاتے ہیں؟ کیا حامد میر کے معاملے میں جو جیو نے کیا، پارکس میں بیٹھے جوڑوں کے متعلق جو مایا خان نے کیا، کیمرے کے پیچھے جو عامر لیاقت نے کیا، کیا یہ سب صرف میڈیا ہی کرتا ہے؟ نہیں. یہ ہمارے معاشرے میں پھیلے روز کے جرائم ہیں. ہم دن کے ٢٤ گھنٹے تحقیق کے بغیر دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگاتے، انھیں کافر، مرتد، مشرک اور زانی قرار دیتے ہیں. ہم ہمیشہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سب "کیمرا" بند ہونے کے بعد وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو عامر لیاقت صاحب نے کی. کیا ہم سب غدار اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار نہیں؟
مذھب کو لیجئے. کیا مذھب کے بارے میں صرف میڈیا ہی غیر حساس ہے؟ کیا مذھب کو نفع کے لئے صرف میڈیا استعمال کرتا ہے؟ کیا مذھب کے نام پر جو چیزیں میڈیا دکھا رہا ہے وہ عوام میں موجود نہیں؟ کیا جن لوگوں کو میڈیا عالم کے طور پر پیش کرتا ہے، ان کے کوئی پیروکار عوام میں نہیں؟
میرے نزدیک میڈیا دوسرے اداروں کی طرح منافع بخش ادارہ ہے جس کے مالکین پاکستانی ہیں اور اسی عوام سے ہیں جس عوام کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا. ہمارے میڈیا چینلز کو کوئی بھارتی یا امریکی نہیں چلا رہا بلکہ وہ اخلاقی زوال چلا رہا ہے، جو پاکستانی سماج کے ہر کونے، ہر ادارے اور ہر شخص کو چلا رہا ہے. یہ ادارہ بلکل عوام کی طرح صرف اپنے منافع کا سوچتا ، خبروں، تبصروں اور ڈراموں میں الزامات، جھوٹ اور بےحیائی کی ملاوٹ بھی کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ اچھے کام بھی کرتا ہے. خورشید ندیم صاحب نے کیا خوب بات کہی کے سماج میں کبھی جزیرے نہیں بنتے، زوال آئے تو ہر طرف آتا ہے. یہ نہیں ہو سکتا کے عوام تو سب کی سب اخلاقی زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہو لیکن ادارے اخلاقیات کے اونچے مقام پر کھڑے ہوں. یہ ممکن نہیں کے پورا معاشرہ بے لگام اور بغیر کسی سمت کے چل رہا ہو، اور اس عوام کا ایک ادارہ بلکل صحیح سمت میں چل رہا ہو.
اس کے ساتھ ساتھ بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کے ایک ادارے یا اس کے کرتا دھرتا لوگوں کا نقطہ نظر ہی، مثال کے طور پر، لبرل ہے اور وہ اپنی آرا کو پھیلانے کے لئے اپنے نقطہ نظر کی حامی قوتوں سے امداد بھی لیں. میری ناقص راۓ میں یہ کوئی غداری یا بیرونی قوتوں کا آلہ کار بننے کے مترادف نہیں ہے. یہ صرف نقطہ نظر کا اختلاف ہے. البتہ اس نقطہ نظر سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے اور ہم اس کے برخلاف اپنی بات کو لوگوں تک پہچانے کے لئے راستے ہموار کر سکتے ہیں. جمہوریت کا شکریہ.
میں ساتھ میں یہ بھی کہتا چلوں کے غدار کہیں بھی پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے. لیکن کسی کو بغیر ٹھوس ثبوت کے غدار نہیں کہا جا سکتا. ہم نہ کسی کی حب الوطنی پر شک کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے ایمان پر. جیسا کے عامر خاکوانی صاحب نے اپنے تازہ کالم میں لکھا کے "کسی کی حب الوطنی پر شک کی ضرورت نہیں، اپنے وطن سے کون محبت نہیں کرتا، نقطہ نظر البتہ مختلف ہو سکتا ہے". یہی بات مذھب اور ایمان کے متعلق بھی ٹھیک ہے. کوئی مسلمان جان بھوج کر دین سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتا.
اس لئے میرے نزدیک نہ تو میڈیا غدار ہے، نہ ہی بیرونی قوتوں کا آلہ کار. یہ اخلاقی انحطاط کے شکار باقی سب اداروں میں سے ایک ادارہ ہے. البتہ یہ ابھی طفل مکتب ہے، اسے ابھی ابھی پر لگے ہیں، اور میرے نزدیک اگر جمہوری اقدار کو پروان چڑھنے دیا گیا، اور احتساب اور مثبت تنقید کا عمل چلتا رہا تو جلد میڈیا میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں گی. ہمارے اہل علم اور دانش کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کے معاشرے اور اس کے بڑے اداروں کے احباب حل و عقد کے اذہان بدلیں. عوام کو چاہیے کے ایسی غلطیوں پر مثبت تنقید ضرور کرے لیکن ان خامیوں کی وجہ سے کسی کو غدار اور بیرونی قوتوں کا آلہ کار کہنے سے پہلے اپنے معاشرے پر نظر دوڑا لیں. شائد پورا معاشرہ اور اپنا آپ بھی غدار، ملک دشمن اور بیرونی قوتوں کا آلہ کار محسوس ہو.
الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو. جہاں رہئے اپنے ارد گرد الله کی مخلوق کے لئے باعث رحمت بنئے