Tuesday, September 17, 2013

جاوید غامدی صاحب کی قدم بوسی

ایک بڑے انسان اور عالم سے ملاقات جتنی دفعہ ہو، کم ہے. ہر ملاقات میں اس کی شخصیت اور علم کے مختلف پہلو سامنے آتے رہتے ہیں. وہ کہتے ہیں نہ کے ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے، شائد یہ بھی کہتے ہوں کے ایک اچھی کتاب انسان کو سو علما کے علم کا نچوڑ بتاتی ہے، میرے مطابق سب سے بڑھ کر، ایک عالم کی صحبت انسان کو سوؤں کتابوں میں موجود ہزاروں علما کے علم کا نچوڑ سکھاتی ہے.

میں ان خوش قسمت گنہگاروں میں سے ہوں جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کے وہ اپنے زمانے کے بڑے اہل علم سے مل سکیں، ان کی نجی محفلوں میں ان کی صحبت سے فیض یاب ہو سکیں، اور ہزار کتابوں کا نچوڑ چند گھنٹوں کی نشست میں سیکھ سکیں. جب اپنے اعمال پر نظر پڑتی ہے تو سوچتا ہوں کے قیامت کے دن الله تعالہ کے سامنے کس منہ سے جاؤں گا، اس بات کا کیا جواب دوں گا، کے "میں نے تمہیں اپنے وقت کے اعلی ترین عالم کی صحبت دی، تم نے اس صحبت سے کیا علمی اور عملی فائدہ اٹھایا اور کس طرح  دین کے کام میں اس کی مدد کی؟" الله مجھے عمل کی توفیق عطا فرماے.آمین 

اس دفع جاوید احمد صاحب غامدی سے ملاقات ہوئی تو ایک سوال کے جواب پر میں سوچنے لگا کے کیا ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والا ایک دینی عالم ایسا بھی ہو سکتا ہے. اپنی قسمت پر رشک آنے لگا کے خدا نے ایسے عالم کا قرب عطا کیا. غامدی صاحب سے جب میں پہلی دفع ملا تو میں نے ملاقات کے آخر میں ان سے ایک نصیحت کی درخواست کی، ان کے الفاظ تھے کے "کبھی بھیکسی کے اسیر مت بننا، میرے بھی نہیں. میں انسان ہوں اور غلطی کر سکتا ہوں." اس کے بعد انھوں نے مجھے تین بڑے مکاتب فکر کی نمائندہ کتب کے نام بتاے اور مجھے کہا کے میں ان کی کتاب "میزان" کے ساتھ ساتھ ان کتب کا مطالعہ بھی کروں. اس میں مولانا مودودی کی "الاسلام " اور شاہ ولی الله کی "حجتاللہ بالغہ" شامل تھیں. پہلی ملاقات میں غامدی صاحب کی کہی ہوئی اس بات کا اثر ہمیشہ ذہن پر تازہ رہتا ہے.

پچھلے دنوں جب میں غامدی صاحب سے دوبارہ ملا تو نشست کے اختتام پر میں نے کچھ دوستوں کا سلام ان تک پہنچایا اور ساتھ میں ڈرتے ڈرتے ایک اور دوست کی یہ بات ان تک پہنچائی کے میں ان کی طرف سے غامدی صاحب کے پیر چوموں، ان کی شدید خواہش ہے کے اگر انھیں زندگی میں موقع ملا تو وہ غامدی صاحب کے پیر چومنا چاہیں گے. اس پر غامدی صاحب ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھے اور ذرا سے سخت الفاظ میں کہا کے ان سے کہیں کے ایسا سوچنا اور کرنا چھوڑ دیں، ایک معلم سے اتنی عقیدت کی وجہ سمجھ نہیں آتی. میں نہ تو کوئی پیر ہوں نہ ہی کوئی نبی. میں نے ان سے استفسار کیا کے استاد سے عقیدت تو پیدا ہو ہی جاتی ہے. انھوں نے جواباً کہا کے الله ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کے ہمارے اندر پیدا ہونے والے پرستش کے ہر جذبے کا رخ صرف اور صرف اسی کی طرف ہو . اور دل میں پیدا ہونے والے ایسے تمام عقیدت کے جذبات کا رخ رسول الله کی طرف. 

ان دونوں واقعات کو جب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کے ایک عظیم انسان اور عالم دین نے کس طرح میرے اندر اس کے لئے پیدا  ہونے والی عقیدت کا رخ صحیح سمت میں موڑ دیا اور کس طرح اس نے مجھے شخصیت پرستی میں مبتلا ہونے سے بھی  بچا لیا . کبھی کبھی  کچھ دوست مجھ سے سوال کرتے ہیں کے کیا غامدی صاحب دین میں ایک نیافرقہ نہیں بنا رہے. میں ہمیشہ ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کے جو شخص اپنے آپ کو انسان اور طالب علم کی جگہ پر رکھتا ہو، اپنے علم میں غلطی کا امکان مانتا ہو، اپنے پیروکاروں کو اپنےعلاوہ دوسرے علما اور مکاتب فکر کے علم سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہو،اورانہیں اپنا ہی اسیر بننے سے ہمیشہ روکتا ہو وہ شخص کبھی نیا فرقہ نہیں بناتا. ہاں یہ الگ بات ہے کے اس کے بعد آنے والے لوگ ایسا کر دیں کیونکےایسا ہونا تو انبیا بھی نہیں روک سکے. البتہ اپنی زندگی میں غامدی صاھب، انبیا کی سنت پر عمل کرتے ہوے، ہمیشہ تفرقہ بازی اور شخصیت پرستی کے خلاف برسر جنگ ہیں. میری ناقص راے میں اگر ہمارے علما صرف انہی چار نکات پر اپنے پیروکاروں کی تربیت کریں تو یقینن ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والے مذھبی لوگوں کے رویوں میں بہت تبدیلی آ جائے گی.

 الله دین اسلام کے تمام اہل علم کو لمبی اور صحت مند زندگی عطا فرماے، انھیں دین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے. اور مجھ جیسے کم علم گنہگاروں کو ان کے علم سے فائدہ اٹھا کر اپنے عمل میں بہتری کی توفیق عطا فرماے. آمین .