Tuesday, January 1, 2013

اختلافات - خدا کی نعمت


الله تعالیٰ نے اس دنیا میں اختلاف کے ذریعے خوبصورتی پیدا فرمائی. اگر ہم اس دنیا کا بغور جائزہ لیں  تو ہمیں یہ حقیقت آشکار ہو گی کے انسانوں، جانوروں، نباتات و جمادات، قدرت کے حسین نظاروں ، پھولوں، موسموں، غرضیکے ہر شے میں  خوبصورتی کی اصل وجہ اختلاف  اور تنوع  ہی ہے.. آپ غور کیجئے  کے صحرا اختلاف سے محرومی کے سبب بوریت کا باعث بنتے اور گلستان اسی اختلاف کی دولت سے مالا مال ہونے کے باعث د لکش محسوں ہوتے ہیں. اسی طرح یہ اختلاف ہی اصل میں دنیا میں ہماری دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے.

میرے  بچپن کا کچھ حصہ کویت جیسے صحرائی ملک میں اور جوانی کا ایک بڑا حصہ ملائشیا  میں گزر رہا ہے جہاں سارا سال موسم معتدل رہتا ہے. یہاں سالہا سال تقریباً ایک ہی موسم رہتا ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی بوریت کا احساس ہوتا ہے اور اپنے وطن کے 4 موسم یاد آتے ہیں.کچھ یہی صورت حال انسانوں کے افکار اور خیالات کی بھی ہے. الله تعالیٰ کا انسانوں پر یہ بہت بڑا کرم ہے کے اس نے انسانوں کے خیالات، افکار اور زاویہ نظر میں اختلاف رکھا. اگر پوری دنیا کے لوگ ایک ہی طرح سوچتے تو نہ انسانی تمدن ترقی کرتا اور نہ ہی علم کی دنیا میں ترقی ہوتی. زاویہ نظر کا اختلاف ہی انسانی ذہن کو کشادہ کرتا اور انسان کے سوچنے کے انداز میں وسعت پیدا کرتا ہے.
     انسان اگر اختلاف  اور تنوع کی اس اہمیت کو سمجھ لے تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کے اصل میں اختلاف اس دنیا کے پروردگار کی بہت بڑی نعمت ہے


 لیکن افسوس، ہمارے ہاں اختلاف کو نعمت کی بجاے زحمت سمجھا جانے لگا ہے. ہم نے فکری اختلاف کو باہمی عناد اور دشمنی کا موجب بنا لیا ہے. ہمیں یہ نہیں سکھایا گیا کے کس طرح ہم  اپنے رشتوں اور افکار میں اختلافات کو الگ الگ رکھیں.  نتیجتاً لوگ اختلاف جیسی نعمت سے بھاگنے لگے ہیں. کہیں صوبائیت کو ناسور سمجھا جاتا ہے تو کہیں مسلمانوں میں موجود مختلف مکتبہ فکر کو زحمت. حالانکہ پنجاب، سندھ، خیبر پختون، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے تہذیبی، لسانی اور جغرافیائی اختلافات ہی پاکستان کے حسن کا مظہر ہیں. اسی طرح مسلمانوں میں موجود مختلف مکتبہ فکر ہی اصل میں اسلامی علم و فکر کی ترقی کے ضامن ہیں. مسلہ تو اپنے صوبہ پر تکبر اور دوسرے صوبے اور وہاں کے لوگوں کو کمتر سمجھنے میں ہے. اسی طرح صرف اپنے مکتبہ فکر کو حق پر اور باقی تمام مکاتب فکر کو گمراہ سمجھنا اصل مسلہ ہے. 

المیہ یہ ہے کے اب  ہر جگہ اختلافات کو سرے سے ختم کرنے کی غیر فطری بات کہی جاتی ہے. علما ہوں یا دانشور، سیاسی قائدین ہوں یاعام آدمی ہر شخص اختلاف کو ختم کر کے وحدت قائم کرنا چاہتا ہے.  یہ  سراسر حقیقت کے برعکس ہے. میں سمجھتا ہوں کے جب تک انسان روبوٹ نہیں بن جاتے اختلافات بھی ختم نہیں ہو سکتے. اسی لئے ہمیں اختلافات کو ختم کرنے پر زور دینے کی بجاے، اپنے آپ اور آنے والی نسل کی ، اس بات کی تربیت کرنی چاہیے کے اختلافات کے باوجود کس طرح اچھے روابط برقرار رکھے جا سکتے ہیں. ہمیں اس بات کا پرچار کرنا ہے کے اختلاف ایک نعمت  ہے اور اختلافات کے ساتھ جینا ہی اصل جینا ہے اور ایسے جینے میں ہی اصل خوبصورتی ہے.

جہاں بھی رہیے اپنے ارد گرد الله کی مخلوق کے لئے سکون اور خوشی کا ذریعہ بنیے