کچھ عرصہ قبل پاکستان میں سیلاب آیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں بے حد جانی اور مالی نقصان ہوا. مون سون کے موسم میں پاکستان میں ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور زیادہ بارشوں کی صورت میں سیلاب آنے کے امکانات بھی ہوتے ہیں. لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہماری حکومتوں کی جانب سے کبھی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی . نتیجہ یہ ہے کے ہر سال بارشوں کے نتیجے میں بہت جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے. لیکن ہم لوگ اپنے سازشی ذھن کو استمعال کرتے ھوے سارا ملبہ امریکا پے ڈال دیتے ہیں. سیلاب کے دنوں میں بہت سے لوگوں سے یہ کہتے سنا کے امریکا ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان میں سیلاب لانے کا ذمہدار ہے. مجھے اندیشہ ہے کے اپنے اس رویے کی وجہ سے، چونکے ہم نے ابھی تک سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کے، اگلے سال بھی، خدا نخواستہ، "امریکا" دوبارہ پاکستان میں سیلاب کے ذریعے تباہی پھیلاۓ گا.
اسی طرح کی ایک اور قدرتی آفت ڈینگی کی صورت میں پاکستان پے نازل ہوئی. لوگوں نے دوبارہ اس آفت کو امریکا کے کھاتے میں ڈالا اور آج بھی انٹرنیٹ پے ایسے آرٹیکل موجود ہیں جو یہ استدلال دیتے ہیں کے امریکا نے کیوبا میں بھی وار فیئر کے لئے ایسا ہی کیا تھا اور پاکستان میں بھی وہ ہی ڈینگی کا ذمدار ہے. البتہ، سیلاب کے برعکس، اس دفعہ حکومت نے صحیح سمت میں اقدامات کیے اور ڈینگی پے کافی حد تک قابو پا لیا. ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال لاہور میں ڈینگی نے ١٦٠٠٠ لوگوں کو بیمار کیا اور ٣٥٢ لوگ اس وائرس کی وجہ سے ہلاک ھوے. اس سال حکومت کے بر وقت اقدامات کی وجہ سے صرف ٢٣٤ کیسز سامنے آے اور ایک بھی شخص ہلاک نہیں ہوا.
اب ایک انفرادی نوعیت کے واقعے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتا ہوں. میرے ایک قریبی دوست کے عزیز کچھ عرصہ قبل یورپ کے ایک ملک میں روزگار کے سلسلے میں گئے. کچھ سال وہاں گزارنے کے با وجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور واپس پاکستان آ گئے. اس دوران بہت سے لوگ یورپ گئے اور کامیاب بھی ہوے. موصوف نے اپنی سب ناکامیوں کا ملبہ اپنے والدین کی غلط منصوبہ بندی پے ڈالا اور ہمیشہ خود کو بری از زماں قرار دیا. آج انھیں یورپ سے واپس آئے کئی سال بیت چکے ہیں، لیکن آج بھی اگر آپ ان کے ساتھ بیٹھیں تو ان کی انگلی ہمیشہ دوسروں کی طرف اٹھتی نظر آے گی، کبھی والدین، کبھی وطن، کبھی اپنے ارد گرد کے لوگوں اور کبھی معاشرے کو مورد الزام ٹھہراتے اور لعن تان کرتے نظر آیئں گے. آج بھی وہ یہی کہیں گے کے وہ ایک انتہائی با صلاحیت انسان ہیں اور زندگی میں بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن ان بیرونی اسباب کی وجہ سے وہ آج ناکام ہیں. نتیجہ یہ ہے کے، صلاحیت ہونے کے باوجود، آج بھی وہ ایک بیروزگار اور ناکام انسان ہیں.
ان واقعات میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں. ہم اس اصول کو انفرادی زندگی میں تو ہمیشہ مانتے اور اسی کا درس دیتے ہیں کے خود احتسابی میں ہی کامیابی ہے، کے انسان جب کسی پر انگلی اٹھاتا ہے تو ایک انگلی دوسرے کی طرف اور چار اپنی طرف ہوتی ہیں، کے اپنے آپ کو مضبوط بناؤ گے تو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن اجتمائی معاملات میں ہمیشہ اس کے خلاف عمل کرتے اور سوچتے ہیں. میں یہ نہیں کہتا کے دشمن ہمیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن، میرے دوست کے عزیز کی طرح، جب کوئی قوم اپنی ہر شکست، اپنی ہر کمزوری اور اپنی ہر غلطی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے لگے تو جان لیجئے کے وہ قوم ذہنی طور پر شکست خوردہ ہے، اور اپنی ناکامیوں سے جانتے بوجھتے آنکھیں چرا رہی ہے کیونکے اسی میں وہ اپنے لئے سکون محسوس کرتی ہے. ہمیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے کے وہ قومیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں جو اپنی تباہی اور ناکامی میں دوسروں کی سازشیں ڈھونڈتی ہیں اور اپنی ناکامیوں کا ذمہدار دوسروں کو ٹھہراتی ہے، بلکے وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو تعمیری ذھن کے ساتھ اپنی کمزوریوں کو دور کرتی اور اپنے آپ کو مضبوط بناتی ہیں. ہماری قوم کو اگر ضرورت ہے تو ایسے "سائیکولوجسٹ" کی جو اس کی سوچ کو صحیح سمت میں موڑ سکے. یاد رکھیے کے ضروری نہیں کے وہ "سائیکولوجسٹ" اس قوم کے دانشور اور علما ہی ہوں، یہ کردار میں اور آپ بھی ادا کر سکتے ہیں.
آئیے اپنی تباہی اور ناکامی کو غیروں کے کھاتے میں ڈالنے اور سازشیں ڈھونڈھنے کی بجاے اپنی شکست کو تسلیم کریں، اپنی غلطیوں کو دور کریں اور اپنے ذھن کو تعمیر کے راستے پے ڈالیں. یہی تعمیر اور ترقی کا راستہ ہے.